روزہ صحت مند زندگی کا راز کیسے ،روزہ اور سائنس

روزہ اور سائنس

از ڈاکٹر سلطان محمود
چیف کنسلٹنٹ یو ٹیوب چینل “تھنک ٹینک ایکوکئیر

لیکچر 1

روزے کی مذہبی افادیت سے تو سبھی واقف ہیں لہذا آج ہم سائنسی نقطہ نظر سے اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ روزے کا ہماری صحت اور نفسیات پر کیا اثرات ہیں؟

روزے کا تعلق ہمارے کھانے پینے کے اوقات کی اس بگڑی ہوئی عادت کی درستگی سے ہے جو ہمیں سال میں ایک ماہ کے لئے یاد دھانی کراتی ہے کہ ہم سورج کے سفر کے ساتھ ساتھ اپنے کھانے پینے کے اوقات مقرر کریں۔ ماہ صیام میں اس بات کی ثانوی حیثیت ہے کہ کیا زیادہ کھانے سے صحت مند اور لمبی زندگی گزاری جا سکتی ہے، کم کھانے سے یا مناسب کھانے سے؟

روزہ رکھنے کا دوسرا مقصد ماہ رمضان میں مرغن کھانوں سے پرہیز، بھاری افطاری کی ممانعت اور نظام انہضام میں زہریلے مادوں کے اخراج سے ہے۔ جبکہ تیسرا مقصد سال کے باقی گیارہ ماہ میں رمضان والے اوقات کی پابندی ہے۔

ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں یہ ہمارے جسم میں حرارے یا کیلوریز میں تبدیل ہونے کے بعد ہمارا گلوکوز میٹابولزم یا انرجی میٹابولزم چلتا ہے جس سے ہمارے جسم میں اتنی توانائی پیدا ہوتی ہے کہ ہم روزمرہ کے کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس مقصد کے لئے ہمارے جسم کے ہر خلئے میں NAD نامی میٹابولائٹ یا کو انزائم ہوتا ہے جو توانائی کے نظام کو چلانے کے ساتھ ساتھ دل کے کام کو بھی متوازن کرتا ہے۔ کم یا زیادہ کھانے سے یہ متحرک ہو کر ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ توانائی بناتا ہے۔ اس کا صحت مند درجہ اس وقت ہوتا ہے۔

عام آدمی کا خیال ہے کہ اگر ہم زیادہ پروٹین دودھ گوشت کی شکل میں لیں گے تو صحت مند رہیں گے۔ گو کہ یہ اتنا غلط بھی نہیں لیکن اگر ہم اپنی عمر، قد اور جنس کے حساب سے زیادہ کھائیں گے تو ہمارے نظام میں فری ریڈیکلز پیدا ہو کر اعضاء پر بمباری کرتے ہیں اور اس کو نارمل کام کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتے۔ نیز مسلسل ایسا کرنے سے مختلف کینسر جنم لے سکتے ہیں۔ آپ نے کینسر کا نام پچھلے چالیس پچاس برسوں سے تسلسل سے سنا ہو گا لیکن ہم پھر بھی اسے کینسر سے نہیں جوڑتے۔

روزے یا فاقے کی حالت میں ہمارا جگر زیادہ صحت مند انداز سے کام کرتا ہے اور جگر میں چربی جمع ہونے یا فیٹی لیور نہیں ہونے دیتا جو کہ بے تکا کھانے پینے سے تقریباً ہر دوسرے تیسرے بندے کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔ اگر ہم جگر کو اوپر سے دبا کے دیکھیں تو ہمیں پھولا ہوا نظر آ سکتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر ہم مسلسل تیس دن مخصوص اوقات میں فاقہ کریں تو جگر اور معدہ اپنی اصلی جسامت پر واپس آ سکتے ہیں۔ دنیا کی سبھی ترقی یافتہ اقوام نے روزے کا لفظ نہ بھی استعمال کیا ہو لیکن مقصد وہی چند گھنٹے خالی پیٹ رہنا ہوتا ہے۔ جس سے نظام میں موجود زہریلے مادے صاف یا ڈی ٹاکسیفائی ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر نتیجے کے طور پر جگر پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔

دو کھانوں کے درمیان جتنے طویل وقفے یوں گے وہی ہمارے جسم کے لئے اچھا ہے اب چاہے ہم اسے مذہبی نکتہ نظر سے دیکھیں یا سائنسی نظر سے۔ اگر روزہ ہمیں روزانہ تین سے دو کھانوں پر لے آئے تو ہم زیادہ صحت مند رہیں گے۔

ایک اہم بات پر دھیان دینا بہت ضروری ہے کہ ہمیں افطاری میں بھی احتیاط برتنی چاہیے اور ہم زیادہ کھانے کہ عادت کو دوبارہ سے اپنے اوپر سوار نہ کریں یعنی کم کھانا زندگی کو صحت مند لمبا کرنے کی گارنٹی ہے۔ گرمی کے رمضان میں جسم سے پانی کی کمی ہو سکتی ہے جسے افطار و سحر کے درمیانہ وقفے میں پورا کیا جا سکتا ہے۔

اہم نکات

1۔ روزہ کھانے پینے کی مقدار سے زیادہ اوقات کو درست کرنے کا نظام ہے جسے اگر ہم باقی گیارہ ماہ لاگو نہ کر سکے تو گویا کہ ہم قدرت کو سمجھ نہیں سکے۔

2۔ کھانے کے اوقات میں لمبے وقفے کرنے سے جسم سے چربی، خطرناک فری ریڈیکلز اور دیگر زہریلے مادوں کا اخراج ہونے لگ جاتا ہے جس سے کینسر اور موٹاپے جیسے موذی امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

3۔ اگر رمضان کے بعد وزن بڑھ گیا ہو تو یہ اس نکتے کی جانب اشارہ ہے کہ ہم نے رمضان جیسا نادر صحت کا تربیتی پروگرام ضائع کر دیا ہے

Leave A Comment