کیا ہم عمر بڑھا سکتے ہیں؟
ایک ایسا سوال جس کا جواب ہر کوئی جاننا چاہے گا کیونکہ عمر بڑھانا تو ہر ایک کی کی خواہش ہے کم کرنا شاید کسی کی نہیں ہوتی سوائے کہ وہ جو نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور خود کشی کر لیتے ہیں اسی لیے اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ﷲ تعالی کا بھی حکم ہے کہ جتنی ہمیں عمر دی گئی ہے اس میں ہم جیئیں اور بھرپور جیئیں
مگر بنیادی سوال یہ ہی ہے کہ عمر کا کیسا بڑھایا جائے کیا سائنس کے زریعے یہ ممکن ہے ؟
سائنسدان اس پر بڑے عرصے سے ریسرچ کر رہے تھے کہ ہم اپنی عمر کیسے بڑھا سکتے ہیں
اس پر کوئی بحث نہیں ہے کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں کہ ﷲ نے ہماری عمر کتنی لکھی ہوئی ہے اگر ہم بڑھا لیں تو ہم یہ ازیوم کر لیتے ہیں اتنی ہی اللہ نے لکھی تھی جسے ہم نے بڑھآ لی
ہ ۱۹۷۰ میں ایک روسی سائنسدان کروموسومز کا مطالعہ کر رہا تھا کروموسومز وہ بلینز اور ملینز سیلز جن کو خلیے کہتے ہیں ان سے وہ بنا ہوا ہےہر خلیہ اپنے اندر ہی ایک پورا شہر ہے
اس کے اندر ڈسپوزل سسٹم بھی ہے اس کے اندر انرجی کا سسٹم بھی ہے اس کے اندر پروٹین کا بھی سلسلہ ہے اس کے اندر جنیٹک کنٹرول کرنے والا بھی مٹیریل ہے جینیٹکس کنٹرول کرنے والے مٹیریل کو کروموسومز کہتے ہیں کروموسومز 46 ہوتے ہیں انسان میں اور تئیس جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں اس میں صرف ایک آخری تئیسواں جوڑا ہے اس کو سیکس کروموسومز ہوتے ہیں وہ ایکس وائے ہوتے ہیں جو اس سے پہلے جتنے بائی پیئر ہیں اس کو ہم ایکس کروموسوم کہتے ہیں
کرو موسوم کیا ہے؟
کروموسومز ایک سیڑھی کی طرح بنا ہوا دھاگا سا ہوتا ہے آپ بیک گراؤنڈ میں دیکھیں گے بھی- یہ ہے تبدیل ہوتے رہتے ہیں یہ ریپلیکیٹ ہوتے ہیں یا ڈویژن کا شکار ہوتے ہیں
ایک سے دو بنتے ہیں اور دو جو ہوتے ہیں وہ سیمیلر ہوتے ہیں تقریباً تھوڑے تھوڑے مختلف ہوتے ہیں وہ آپس میں جوڑیاں بناتے ہیں
بہت زیادہ سائنس میں جانے کی بجائے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ان کے سرے جو ہیں وہ ﷲ تعالیٰ نے ایک کیپ لگا کر پروٹین کا کیپ بنا ہوتا ہے وہ لگا کر ان کوفکس کیا ہوا ہے یوں سمجھ لیں ان کے چار کونے بنے چار کیپس ہوتے ہیں
یہ کیپ پروٹین سے بنے ہوتے ہیں اور ان کی غذا کیا ہے آپ جان کر حیران ہوں گے،آکسیجن۔
جب یہ تقسیم ہوتے ہیں تو تقسیم ہونے کے بعد ان کی کپپ تھوڑی سی چھوٹی رہ جاتی ہے اگلے جوڑوں میں پھر تقسیم ہوتا تو کیپ تھوڑی سی چھوٹی اور ہو جاتی ہے اس طرح ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مزید تقسیم ہونے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہےاور اس کو ہم موت کہتے ہیں جو سائنس دان اس پر ریسرچ کر رہے تھے جو روس میں شروع ہوئی فنڈز کی کمی کے باعث بند ہوئی تو برطانیہ کی یونیورسٹی نے اس کے اوپر کام کرنا شروع کر دیا اور ویری ریسنٹلی ایک پیپر چھاپا ہےجس میں پرٹین کیپ کا نام ٹیلومیر نام رکھا گیا تھا
کیپ کے سائزکو کم ہونے سے کیسے بچایا سکتے ہیں-؟
اس سلسلے کو ایجنگ کلاک کا نام دیا تھا سائنسدانوں نے کہ ہماری عمر کی جو گھڑی ہے اس گھڑی یعنی عمر کو بڑھائیں گے ٹائم کو کیسے کم کریں گے یا روک دیں گے یہ سب کچھ اب سائنس دانوں کے کنٹرول میں آتا چلا جا رہا ہےکیپ پہلے سے گھٹ جاتی ہے یعنی جب وہ تقسیم ہوتی ہے تو پہلے سے گھٹتی ہے تو وہ گھٹتے گھٹتے ہمیں موت کی طرف ہمیں لے جاتی ہے اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے تو کیا اس کو اتنا فکس کیا جا سکتا ہے جتنا شروع میں تھی اتنی ہی رہے اس کا حل یہ بتایا گیا ہے کہ ان کیپس کواگر دس منٹ آکسیجن روزانہ ملتی رہے تو بیس سال تک عمر کو بڑھایا جا سکتا ہے
اس کا تعلق سائنس دانوں نے با رسک واک کے ساتھ جوڑآ ہے اب بارسک واک کیا کرتی ہے ؟ وہ واک جو خون کی گردش کو تیز کرتی ہے ہمارا جب سانس پھولتا ہے توہماری خون کی گردش تیز ہو تی ہے خون کی گردش تیز ہونے کی وجہ ایک ایک سیل تک خون پہنچنے کی صلاحیت بن جاتی ہے جب ہم بیٹھے رہتے ہیں ،بہت سارے ہمارے سیلز ہیں ملینز کے حساب سے جہاں تک آکسیجن نہیں پہنچتی اور وہ آہستہ آہستہ ڈیڈ ہو جاتے،اور کچھ جب ہم ایکٹیو ہوتے ہیں تو پہنچ جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دس منٹ تک روزانہ ہم آکسیجن سپلائی کرتے رہیں تو کیپ سائز میں چھوٹی نہیں ہو گی.
کروسومز تقسیم ہوتے رہیں گے لیکن ہر ایک کا سائز وہی سائز ہو گا جو پیرنٹ کروموسومز کا تھا یعنی اگر دس منٹ تک ان کو آکسیجن دیتے ہیں تو بیس سال تک عمر بڑھائی جا سکتی ہے مگر دس منٹ تکہر سیل کو آکسیجن ملے کیسے ؟
کچھ سیلزایسے ہیں جو باہری نظر آ رہے ہیں جیسے اسکین سیل ہیں یہ فوری طور پرآکسیجن لے سکتے ہیں لیکن وہ بڑے ریموٹ قسم کے سیلز ہیں جہاں پٹھے بھی ہم جن کو استعمال نہیں کرتے وہاں آپ ہمارے اعصاب بھی پیغام نہیں لے جا سکتے جب ہم سست ہو کر بیٹھے رہتے ہیں یا جب ہم سموکنگ کرتے ہیں یا شراب نوشی تو یہ وہ چیزیں کہ جہاں تک بہت ضروری ہے آکسیجن جاتی ہی نہیں پاتی اس سیچوئیشن کو بچانے کے لیے دس منٹ کے لیے ہمیں کتنی واک کرنی پڑے گی
تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دس منٹ واک کریں تو وہ آکسیجن مل جائے گی مگر ہمارا اس میں اختلاف ہے
اگر ہم پچیس منٹ واک کرتے ہیں تو شروع تھوڑا سا وارم اپ ہوں پھر دس منٹ تک تیز ہوں اور پھر اس کے بعد پندرہ منٹ سلو سلو کر کے پھر ہم اپنے سانس کو بھی قابو میں لے آئیں
برسک واک میں خون کی گردش کتنی ہونی چاہیے؟
آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا دل دھڑکتا ہے 72 دفعہ ایک منٹ میں مگر بچے کا زرا تیز دھڑکتا ہے بڑے کا ذرا تھوڑا کم دھڑکتا ہے. 72 کو ہم ڈبل کر دیں یعنی ایک سو چالیس کر دیں یہ ہے بارسک واک کا نتیجہ
برسک واک کے شروع سے جب آپ وارم اپ ہوتے ہیں اس وقت آہستہ آہستہ سے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ خون کی گردش تیز ہوتی ہے
لیکن جب وہ تیز ہو جاتی ہے تو آپ اس کو زیرو سیکنڈ سمجھتے ہیں اب آپ اس کے بعد دس منٹ تک تیز رہنے دیں پھر آہستہ آہستہ جب وہ روکیں تو یہ ٹوٹل پچیس منٹ بنتے ہیں
پچیس منٹ روزانہ ہوں گے تو اگر آپ ہفتے میں چھٹی کرنا چاہے تو چھ دن میں ایک سو پچاس منٹ
یہ ایک سو پچاس منٹ کی تھیوری ہے ہفتے میں تقریباً آج سے کوئی پچاس سال پہلےسائندانوں کا ریسرچ پیپر اس پر آچکا ہے لیکن تشریح اب آئی ہے
وہ ایک سو پچاس منٹ کیسے ہوں گے وہ اس طرح ہوں گے کہ جب دس منٹ آپ ان کو آکسیجن کی سپلائی دیں گے
جب ہم بہت زیادہ تیز چلتے ہیں تو پھر خون تیزی سے گردش کرتا ہے تو ہمارا سانس پھول سانس پھولتا ہے تو جب تیز سانس لیتے ہیں تو اس میں پھر جو جتنے ہوا کےاندرآکسیجن ہوتی ہے وہ زیادہ دیر ہم اندر لے جاتے ہیں تو آخری سیل تک بھی پہنچ جاتی ہے جس کے اندر وہ مطلوبہ مقدار میں داخل ہو جاتی ہے
پھراس کے اندرکروموسومز ہے جس کو وراثتی کوٹ کہتے ہیں جس کے اوپر ڈی این بھی موجود ہوتے ہیں اس کے پروٹین کے کیپ کو مضبوط کرے گی
یہ ایک خفیہ بات تھی جس کو سائنس دان بیان کرتے تھے بہت سارے مذہبی عناصر یہ کہتے تھے کہ اگر ﷲ نے آپ کی عمر کم رکھی ہے وہ آپ کیسے بڑھا سکتے ہیں
تو ہم ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں آپ کو کیسے پتا کہ عمر ﷲ تعالیٰ نے کم لکھی ہوئی ہے ہو سکتا ہے لکھی ہی زیادہ ہو. ذیادہ ہو گی تو ہم ذیادہ جیئیں گے
جب روح پھونکی گئی تو پہلے سے اللہ کو پتہ تھا اس بندے نے دنیا میں آنے کے بعد کیسے زندگی بسر کرنی ہے اس نے سیر کرنی ہے یا اس نے بیٹھے ہی رہنا ہے اس نےسگریٹ پھونکتے رہنا ہے یا یہ برسک واک کرے گا وہ اپنے سائز میں چھوٹے نہیں ہوں گے اور اپنی عمر بیس سال آگے لے جائے گا
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آکسیجن لیول زیادہ کہاں ہے شہروں میں زیادہ ہے یا دیہاتوں میں ہے تو مجھے آج صبح چھ بجے ایک فیس بک فرینڈ کی ایک چھوٹی سی کلپ ویڈیو موصول ہوئی
وہ صبح سیر کر رہی تھی ساڑھے پانچ چھ بجے تو دیہات میں رہنے والے ہیں تو وہ دیہات کی جو سڑک تھی وہ بھی دکھائی دے رہی تھی اور دھند بھی تھی اور بڑا وہ ٹھنڈا موسم بھی لگ رہا تھا تو وہ ساتھ ساتھ بتا بھی رہیں تھیں کہ یہ پوزیشن یہ پوزیشن ہے تو میں نے ان کو یہ لکھا کہ آپ اصل میں اپنی زندگی بڑھا رہی ہیں آپ ٹیلومیئر کو مضبوط کر رہی ہے جو ٹیلومیر کم ہورہے ہیں ہماری زندگی میں ان کو آپ آکسیجن مہیا کر رہی ہے
دیہات اور شہر میں فرق ؟
دیہات میں یہ فرق ہے وہاں صورتحال بہتر ہے کہ وہاں پر درخت زیادہ ہیں وہاں پر کھلی فضا ہے وہاں پر جب ہوا چلتی ہے تو اگر کسی ایک جگہ پر پولوشن ہے تو اس کو ڈائلیوٹ کرتے ہوئے دوسری طرف لے جاتی ہے
تو وہاں پر کوئی سورس ایسا پیدا نہیں ہوتا کہ جو پلوشن کرے جو کہ آلودگی فضا میں کرے
اس کی نسبت جب اب شہر میں آتے تو یہ انڈسٹریل ایریا ہے یہاں ٹریفک بہت زیادہ ہوتی ہے بے شک وہ صبح کے وقت نہیں ہوتی لیکن رات کی ٹریفک کے بھی اثرات جو ہیں وہ موجود ہوتے ہیں
گرد بھی ہوتی ہے اور پر بہت زیادہ پولوشن کے اثرات بھی ہوتے ہیں
تو شہر کے لوگ جو ہیں ان میں آکسیجن کی کمی کے چانس زیادہ ہیں دیہات کے بندے کی نسبت
تو چلیں ہم اس کو رد نہیں کرتے لیکن اس میں دیکھیں کہ ابھی جو ریسرچ چاہیے اس نے یہ کہا ہے کہ آکسیجن پہنچانا شرط ہے
چاہے آب شہر میں یا دیہات میں ہیں تو اس کا مطلب کیا نکلا مطلب یہ نکلا کہ جناب اگر آپ شہر میں ہیں
تو پھر خصوصی طور پر آپ نے واک کسی صورت میں نہیں چھوڑنی اور کرنی پھر صبح کے وقت ہے جس وقت پولوشن بہت کم ہوتا ہے آکسیجن کا لیول بڑھا ہوا ہوتا ہے