بہت سارے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ڈائٹ،ورزش سب کچھ کرتے ہیں پھر بھی
موٹاپاجان نہیں چھوڑ رہا
گزشتہ بلاگ میں کچھ اہم وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بغیر موٹاپا کنٹرول کرنا نا ممکن ہے اگر آپ نے وہ بلاگ نہیں پڑھا تو برائے مہربانی
لنک پر کلک کر کے بلاگ کا مطالعہ ضرور کر لیں
اس بلاگ میں موٹاپے کی سب سے اہم وجہ کا ذکر کریں گے
گزشتہ بلاگ میں موٹاپے کی اہم وجوہات میں سے ہارمونل پراالٹبلم کا ذکر کیا گیا تھا جو ہمیں ڈسٹرب کرتے ہیں جس کی وجہ مختلف قسم کی ادویات ہیں دوائیاں کھانے نے ہارمونز کے اندر ڈسٹربنس آتی ہے مگر بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ ہمارے لائف سٹائل کی وجہ سے ہارمونز ضرورت سے زیادہ یا کم ہو جاتے ہیں
مگر سوال یہ ہے وہ کون سے ہارمونز ہیں جو ہمیں موٹاپے کی طرف لے جاتے ہیں؟
اس میں جو ہماری ذاتی لائف سٹائل کی غلطیاں ہیں وہ بھی اس کا باعث بنتی ہیں وہ غلطیاں کیا ہیں یہ جاننا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے ورنہ موٹاپے کے ساتھ ہمیں صحت کے دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
قدرتی طور پر وراثتی اور ماحولیاتی طور پر یا غذاوں کے ذریعے کونسے ہارمون ہمیں موٹآپے کی طرف لے کر جاتے ہیں ایسے ۹ ہارمون ہیں جو موٹاپے کی وجہ بنتے ہیں اور ایک دسواں ہارمون بھی ہے جو ہمارے گروتھ ہارمون کو ریگولیٹ کرتا ہے
کیونکہ یہ ہارمون انڈیپینڈنٹ اثر نہیں کرتے ۲ ہارمون مل کر کام کرتے ہیں اور جب وہ اپنا کام کرتے کرتے پیک پر جاتے ہیں تو دوسرا ہارمون جسے فیڈ بیک میکنزم کہتے ہیں اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور پہلے ہارمون کا لیول نیچے آنا شروع ہو جاتا ہے پھر ایک لیول پر جا کر دوسرا بڑھنا اور یہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہےاس میں فیڈ بیک میکنزم بہت ضروری ہے فیک بیک میکنیزمکنٹرول میں نہیں ہے اس لیے یہ ہارمون خود ہی ڈیسائیڈ کرتے ہیں کہ ہماری باڈی کا فنکشن کیسا ہونا ہے
اور ہم اس طرف چل پڑتے ہیں
اگر ہارمونز کا بیلنس بگڑ جائے تو باڈی کو موٹاپے کی طرف لے جا سکتے ہیں اس میں انسولین کا ذکر ہم سب سے پہلے کریں گے جوہمارے اندر گلوکوز کو کنٹرول کر تاہے اور یہ لبلبہ جسے پنکریاز کہتے ہیں وہاں سے قدرت ریلیز کرتی ہے جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو گلوکوز کا لیول بڑھ رہا ہوتا ہے تو فیڈ بیک میکنزم کے تحت یہ لبلبہ سے خارج ہوتا ہےجو کہ ایک جگہ پر جا کےگلوکوز کو کنٹرول کر دیتا ہے لیکن دوسرا ہارمون جو گلوکوز کو بڑھا رہا ہوتا ہے اس کو گلوکوگن کہتے ہیں وہ بھی وہیں سے نکل رہا ہوتا ہےیہ دو ہارمون ہیں آسان لفظوں میں ہم ایک کہہ سکتے ہیں کہ ایک بھوک لگانے والا اور دوسرا بھوک مٹانے والا یہ دونوں فیڈ بیک میکنزم کے ساتھ چلتے ہیں اس میں اگر ہم باہر سے کنٹرول کرنا چاہیں تو یہ تقریباً تقریباً ناممکن ہو جاتے ہیں
ایک اور ہارمون ہے جس کو لیپٹن کہتے ہیں لپٹین جب ہم کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو یہ ہمارے بھوک کے سینٹر جس کو سٹائیٹی سینٹر کہتے ہیں وہاں سے کوئی بیس منٹ کے بعد ہمیں کوئی میسج ملتا ہے کہ بس اب بہت ہو گیا ہے اب آپ کھانا بند کر دیں جس کو کہتے ہیں ہمارا دل بھر گیا
اوور ایٹراس پر اگر توجہ ناں کریں اور کھاتے چلے جائیں تو یہ خطرناک ہے دماغ نے کہہ دیا ہے کہ اب آپ مزید نا کھائیں مزید کیلوریز فیٹ یا پروٹینز کی اب جسم کوضرورت نہیں ہے یہ مٹاپے کی بڑی وجہ ہے یہ بڑی خطرناک وجہ ہےاس لیے جب اندر سے میسج آئے کہ اب دل بھر گیا تقریباً تو اسی وقت کھانا بند کر دیں
بلکہ حدیث شریف کے مطابق اس سے پہلے بند کر دیں تھوڑی سی ابھی بھوک باقی ہو تو بند کر دیں تو کوئی بیماری نہیں ہو گی
اس کے علاوہ ایک ہارمون کارٹیسول ہے جو ہمارا سٹریس کنٹرول کرتا ہے سٹریس میں ہم کھانا زیادہ کھاتےہیں کارٹیسول اپنا اثر کرتے کرتے کسی خاص درجے پر جاتا ہے تو اعصاب اور دماغ کو کنٹرول کرنے والا ہارمون ہماری باڈی کے اندر ہوتا ہے نیوروپیپٹائیڈ اسے کہتے ہیں جو ہمارے اعصاب کو کنٹرول کرتا ہےیہ سب ہارمونزکا پول ہے ٹیپٹائِیڈ ہارمونز جن کو سی سی کے کہتے ہیں یہ ہمارے میٹابولزم کو چلاتا ہے
ایک ہارمون پی وائی وائی ہے جو کھانے کی ترغیب دیتا ہے یعنی ایک کھانے کو روکتا ہے دوسرا کھانے کی ترغیب دیتا ہے
ایک اور ہارمون ہے جو براہ راست موٹاپے پر اثر انداز نہیں ہے
لیکن اس کو گروتھ ہارمون میں لیتے ہیں وہ ہے. تھارائیڈ گلینڈ ہمارے گلینڈزسے جو ہارمون نکلتے ہیں جیسے تھائِیرکسن یاپیرا تھائِریکسین نکلتے ہیں یہ دو طرح کے ہوتے ہیں
جن کا ڈرائریکٹ موٹاپے سے تعلق نہیں ہے لیکن اگر وہ سلو کام کر رہے ہیں تو ہمارا میٹابولزم ہے وہ سلو چلتا ہے
اور پھر ہم کھا زیادہ لیتے ہیں اور آپ موٹے ہو جاتے ہیں اگر یہ تیز چل رہے ہیں یعنی ضرورت سے زیادہ سٹینڈرڈ سے اوپر بہت جلدی کھانا بند کر دیتے ہیں ابھی جسم کو ریکوائرمنٹ ہوتی ہے جس کے باعث ہمارا جسم بہت سارے نیوٹرنس کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اگر موڈریٹ لیول پہ چلتا رہے جو اس کے سٹینڈرڈ مقرر کر دیئے گئے ہیں
اگرسارے ہارمونز کے پولز کو کنٹرول ہیں اور پھر ضرورت سے زیادہ کھانا کھانے میں بڑھنے لگتے ہیں تورک جاتے ہیں جب ضرورت سے نیچے گرتے ہیں تب بھی ہم بچ جاتے ہیں
کچھ چیزیں غذائیں رنگ دیکھ کر ہمیں پسند ہے تو ہم کھاتے ہیں کئی دفعہ رنگ دیکھ کر ہمیں پسند نہیں آتا تو ہم نہیں کھاتے تو یہ ساری چیزیں آپس میں انٹرلنک ہیں
ہارمونز کو بیلنس رکھنے کا طریقہ
تو اس لیے بہترین اس کا جو طریقہ وہ تین چار پوائنٹس ہیں وہ آپ ذرا ذہن میں رکھے اور وہ کیا ہے جیسکہ حدیث مبارکہ کا ذکر کیا گیا کہ
جب بھی بھوک کم ہو تو کھانا بند کر دیں تو یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ جس کو ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی کوئی اعتراض نہیں کر سکا
تو زیادہ کھانے سے انسان جلدی مرتا ہے اور کم کھانے سے دیر تک زندہ رہتا ہے
یہ ایک بنیادی. فلسفہ یہ ذہن میں رکھیں تو جو کم کھانا ہے وہ دراصل اس چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جتنی آپ کو ضرورت ہے
اسے تھوڑا کم رکھے یہ ہر ایک کی کیٹیگری کے مطابق ہے مثال کے طور پر سپورٹس مین ہے جس نے بھاگنا یا مزدور ہے جس نے بہت محنت کرنی ہے
تو اب وہ کہیں گے کہ وہ بھی اتنے ہی کم کھائے جتنا دوسرے کر رہے ہیں اس طرح نہیں ہے
جو بالکل کوئچ بنا ہوا ہے ٹی وی کے سامنے چار گھنٹے بیٹھا یا لیپ ٹاپ پر چار گھنٹے بیٹھتا تو وہ اس کی ریکوائرمنٹ مختلف ہے
بھوک رکھ کر کھانا پہلا پوائنٹ دوسرا یہ ہے کہ ایکسرسائز مت بھولیں آپ یہ ساری چیزوں کو اگر آپ کہیں کہ میں اچھی چیزیں کھاتا ہوں میں یہ بھی مسئلہ نہیں ہے
یہ بھی میں ایکسر سائز چھوڑ دوں.نہ چاہے وہ واک ہو چاہے وہ ہارڈ ایکسر سائز وہ جس میں بھی پسینہ آتا ہے یا پھر وہ یوگا ہو تو یہ سب ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں
بھارتی یوگا ہے ہمارے ہارمونل بیلنس میں بھی کام کرتے ہیں
بعض ٹائم میں خواتین کے اندر جو ہارمونز چینجز آتی ہیں یا مردوں کے اندر جو چینجز آتی ہیں کئی دفعہ پلز اسی استعمال کرتے ہیں یا انجیکشن استعمال کرتے ہیں کہ جسم کا ہارمون سسٹم جو ہے اس کو چھیڑ چھاڑ دیتی ہے.
نیند کا کنٹرول بالکل سٹینڈرڈ رکھیں کہ اس وقت سونا کس وقت اٹھنا ہے
قدرت کو مدنظر رکھیں گے تو آپ بہت کامیاب ہے یعنی سورج جب نکلتا ہے تو وہ اشارہ دیتا ہے کہ اب آپ اٹھنا ہے اور جب شام سورج ڈھلتا ہے تو پھر اس کا مطلب آپ نے اپنی ایکٹیویٹیز کو وائنڈاپ کر. اب آپ نے سونے کی طرف جانا ہے
ہم نے دن بھر کا اگر ہم نے کام کیے ہوئے ہیں تو ہمارا دماغ تھکنا شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت ہم آہستہ آہستہ غنودگی کی طرف جاتا ہے تو بیسٹ ٹائم سونے کا اگر دیکھا جائے تو سٹینڈرڈ دنیا کے مانے ہوئے چار گھنٹے ہیں
اگر پاکستان کے مطابق بات کر رہا ہوں کہ وہ رات نو سے لے کر ایک بجے تک
اگر آپ لوگوں کی ہسٹری دیکھتے ہیں
تو وہ تو ساری رات بھی کام کرتے تھے دن کو بھی کرتے ہیں لیکن یہ حضور پاک صلی وسلم کی عادتوں میں سے ایک عادت تھی
کہ وہ عشا کے فوراً بعد سو جاتے تھے اور تہجد کے وقت اٹھ جاتے تھے یہ گہری نیند دماغ کو اپنے وہ تمام عوامل پورے کرنے میں مدد دیتی ہے
کہ جو اس کے ہیلدی 24 گھنٹے کا جو سٹائل ہے اس کو ہلیدی رکھتا ہےمثبت سوچنا ایک ایڈیشنل چیز ہے لیکن وہ بنیادی تین جو چیزیں میں نے آپ سے عرض کیا ہے
وہ اس پر آپ غور کریں تو ہارمون انشاءﷲ خود ہی کنٹرول کر لیں گے اور باری باری کسی کے اوپر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ہاں اگر کوئی ڈائیبیٹک ہےیا سائکالوجی کا کوئی مریض ہے
اس پر آپ غور کریں وہ کچھ ہارمون لے رہا ہے. یا جیسے سکن کے کوئی پرابلم ہے اس وجہ سے ہارمون لے رہا ہے تو وہ ایک بیماری کی سیچوئیشن ہے اس میں ہمارا ریسپونس ہارمونز کی طرف ہوتا ہے